عزیز کنگرانی
اردو ادب، شاعری، ادبی تنقید اور تحقیق میں عورت ادیبائوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ مگر جس طرح ہر پھول کی اپنی خوشبوء ہوتی ہے اس طرح ہر عورت ادیبہ کی تخلیق کی خوشبوء اپنی انفرادیت کی حامل ہے۔ جس طرح ہر پھل (Fruit) کا اپنا ذائقہ ہوتا ہے اس طرح ہر ادیبہ یا شاعرہ کی تخیل اور تخلیق کا اپنا زاوریہ ہوتا ہے۔ ہر ایک کی تخلیق میں جذبات کے اظہار کی مٹھاس شہد کی طرح اپنی اپنی ہوتی ہے۔ شگفتہ خورشید کا بھی ان ادیبائوں اور شاعرائوں میں شمار کیا جا سکتا ہے جن کی تخلیق اور تخیل کی خوشبوء، خوبصورتی اور مٹھاس اپنی ہے۔ اس کے تخیل کی اپنی منفرد رنگینی اور رنگت ہے۔ اس کی تخلیق چاہے شاعری، تنقید یا تحقیق ہو اس میں تخلیقی زبان کے استعمال کی خوبی اسے بلاشبہ منفرد ادیبائوں کی فہرست میں شامل کرتی ہے۔
یہاں یہ بات کہنا اشد ضروری ہے کہ جن مضطرب حالات کے جھنگل میں سے گذر کر شگفتہ خورشید نے جو مقام پایا ہے ان حالات میں سے کم عورت تخلیقکار گذری ہونگی۔ شگفتہ خورشید کا تعلق بابا بلھے شاہ کی سرزمین سے ہے۔ شگفتہ کی پیدائش صوبہ پنجاب کے ضلع قصورکے ایک چھوٹے سے گائوں میں ہوئی۔ جہاں تعلیمی سہولیات کا آج بھی فقدان ہے۔ لیکن اس نے فقدان کی اس دلدل سے نکلنے کیلئے محنت اور مشقت کا سہارہ لیا۔ جستجو لاتقنطو کی طرح جہد مسلسل سے کام لیا۔ یہ پڑھتی اور لکھتی رہی۔ اس سلسلے میں شگفتہ نے اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے سنگلاخ پہاڑ عبور کرتے ہوئے اپنے پسماندہ گائوں کی پہلی لڑکی بنی جس نے پی۔ ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور یہ ثابت کیا کہ حالات کتنے بھی کٹھن یا سنگین کیوں نہ ہوں مگر آدمی کچھ کرنے کو آئے تو بہت کچھ کر سکتا ہے۔ اپنے وجود کی بقا کے لیے احساس محرومی کو شکست دی اور علم و ادب کے راستے پر گامزن ہوئی۔
شگفتہ خورشید کی اردو ادب سے والہانہ وابستگی نے اسے شاعرانہ، محققانہ سوچ اور ادبی ذوق عطا کیا۔ یہ بڑے عرصے سے علم وادب، درس و تدریس، تحقیقی اور تنقیدی ادب سے وابستہ رہی ہے تو شاعری بھی کرتی رہی۔ اس کے کافی عرصے سے اردو میں کئی ادبی، تنقیدی اور تحقیقی مضامیں پاکستان کے معیاری ادبی اور تحقیقی رسالوں میں شائع ہوئے ہیں اور اب بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین اردو ادب کا اثاثہ ہیں۔ شگفتہ مستقل مزاجی سے تنقیدی اور تحقیقی مضامین لکھ کر اردو زبان کی زرخیزی میں اضافہ کرتی رہی ہے۔ اس کے مضامین کے موضوع منفرد اور غیر روایتی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے قارئین بڑی دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ فکشن ہائوس پبلیکیشن لاہور کی طرف سے اس کی کتاب “تلمیحات فیض احمد فیض” شایع ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں شگفتہ خورشید ایم فل میں گولڈ میڈلسٹ ہیں جب کہ اس نے اردو ادب میں پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری بھی امتیازی حیثیت میں حاصل کی ہے۔ شگفتہ خورشید اس وقت اردو ادب کی سینیئر سبجیکٹ اسپیشلسٹ کے طور پر ضلع قصور میں تدریسی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
شگفتہ خورشید اردو کی جدید اور بہترین شاعرہ بھی ہے۔ اس نے بہترین شاعری کی ہے۔ اس نے شاعری کی دوسری اصناف کی نسبت میں غزل کی صنف زیادہ لکھی ہے۔ شاعری کے حوالے سے یہ انتہائی منفرد جدید شاعرہ ہے۔ شگفتہ کی شاعری میں موزونیت کا عنصر کہیں کہیں متاثر نظر آتا ہے مگر اس کی شاعری کی موسقیت متاثر نہیں ہوتی۔ اس کی شاعری میں جذبوں کی رنگین تتلیاں تخیل کے پھولوں پر اتراتی پھرتی ہیں۔ یہ خوبصورت خیالات اور احساسات کی شاعرہ ہیں۔ اس کی شاعری پڑھ کر لگتا ہے کہ جب وہ لکھتی ہے تو تخلیق کے پھول نکھرتے ہیں۔
طرحی غزل
بیٹھے ہیں پیار میں دل ویراں کیے ہوئے۔
چاندنی کے پھولوں کا گلستاں کیے ہوئے۔
کہتا ہے کون کہ ہم برباد ہیں عشق میں،
“مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے۔”
تخیل میں پھر رہی ہے آج بھی وہ صورت،
مطمئین روح تھی اسے بے نشاں کیے ہوئے۔
رسوا کر ہیں دیتے جسے کہتے ہیں راز دل،
گذرتی رہی ہے زندگی اسے رازداں کیے ہوئے۔
ظلمت کے اس دیار میں ہم سہہ کر ہر ستم،
چپ چاپ رہے ہیں پھرتے بندزباں کیے ہوئے۔
بکھرے ہیں آج بھی یاد ماضی کے صحیفے،
قرنوں سے تھی جنھیں زنداں کیے ہوئے۔
جس راہ میں دل کوئی آشنا بھی نہیں،
کیوں دشت کو ہو تم آستاں کیے ہوئے۔
وہ لے آِئے اس وقت پیام زندگی شگفتہ،
جب منتظر تھے موت کو ساماں کیے ہوئے،
غزل
اے دل میں کن لمحوں کی کتاب لکھوں۔
وہ حسیں بچپن کہ رنگیں شباب لکھوں۔
حسن و عشق، سیاست کہ دین و ایماں،
ہیں جی میں مضامین بے حساب لکھوں۔
رونا آہ و زاری، مسکرانا ہے زندگی،
نالہء بلبل کہ داستان گلاب لکھوں۔
ہوتی نہیں صبح ہر سو گھنے ہیں بادل،
پیاسا ہےصحرا جس کی امید سراب لکھوں۔
تلخیوں میں زندگانی نہ بدلی شگفتہ ہرگز،
دیکھے ہوئےسہانے کیسے خواب لکھوں۔